بدھ، 15 جون، 2022

آم کو عام کرو۔

 آم کو عام کرو


آم کو ہم نے ہمیشہ ایک عام سا پھل ہی سمجھا،  جب تک کہ پردیس میں  اس کی قدر نہ جان لی ۔ یوں تو آم شاہ سخن غالب کے بھی پسندیدہ تھے مگر کیا کریں ہماری احساس کمتری کی ماری مشرقی ذہنیت کا کہ آم ہمیں اسی صورت خاص لگے،  جب پردیس میں  ان کمیابی کا علم ہو گیا ۔ 

ہم تو اس خطے کے لوگ ہیں،  جنہیں کوہ نور بھی تاج برطانیہ میں  سجنے کے بعد خوبصورت  لگتا ہے ۔ 

سو محب آم لوگوں سے مل کر ہمیں معلوم ہوا کہ موسم گرما کی چھٹیوں میں  گاؤں جانے والوں  کی سب سے بڑی کشش آم ہوتی ہے ۔ جن کے رشتے دار گاؤں میں  نہ ہوں،  وہ آم کی قیمت پوچھ کر ہر طرف " آم کو عام کرو " کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں ۔ 

مغربی ممالک میں  پاکستانی آم کی قدر و منزلت دیکھ کر اکثر لوگوں  کو کہتے سنا ۔ 

" مجھے عام پاکستانی نہیں  بلکہ پاکستانی آم سمجھ کر ڈیل کرو ۔" 

مگر ٹھنڈے ممالک میں  رہنے والے یہ گورے عام اور آم کا فرق کیا جانیں ۔ 

یہ فرق وہی جان پاتے ہیں جو یہاں کی گرمی میں  آموں کی پیٹی اور کچی لسی کے جگ سے استفادہ کرنے کے بعد سہولت سے کہتے ہیں ۔ 

"

گرمی نے بھوک ہی مار دی ہے،  دو دن سے روٹی نہیں  کھائی ۔ " 


جیسے پردیس جاتے ہی لوگ وعدے بھول جاتے ہیں اسی طرح ہمارا سنہرا،  پیلا،  سجیلا آم دیکھ کر ذیابطیس کے مریض بھی اپنا پرہیز بھول جاتے ہیں  ۔

 

عموماً لوگوں کا خیال ہے کہ آم گرمی کا پھل ہے،  اس لیے مغربی ممالک میں  کم پایا جاتا ہے ۔ ہمارا خیال قدرے مختلف ہے، آم چھری کانٹے سے دور رہنے والا درویش صفت پھل ہے،  اسی لیے فقیر صفت لوگوں  کے خطے میں  عام ملتا ہے ۔ جو آم جیسے پھل کو بھی بناء کاٹے کھا سکتے ہیں ۔ 

یوں تو لوگ آم کو کانٹے سے کھا کر خود کو تہذہب یافتہ  ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر اس چکر میں  وہ چونسے کو دبا کر کسی جوسر کی مدد کے بناء جوس پینے کے مزے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

آم بےتکلف ساتھیوں  کا پھل ہے ۔ یہ جوانوں  کا کرائم پارٹنر ہوتا ہے ۔جن دوستوں کے ساتھ آپ آم کھا سکتے ہیں،  ان کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے اپنے بچوں  کی تربیت کرتے ہوئے عام سے دوست بھلے نظر انداز کر دیں  مگر ان کے "آم  دوستوں " پر ضرور نظر رکھیں ۔ 

یوں تو اقسام کے حساب سے آم قدرتی طور پر بے شمار ہیں مگر اس میں  ایک قسم کچے آم یعنی کیری  کا اضافہ سراسر مقامی ہے ۔ کیری ہاتھی  کے دانت کے طرح کی  کچی بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے ۔  آم آنے سے پہلے ہی یہ کئی طرح سے استعمال ہو چکی ہوتی ہے ۔ اس کا اچار یا مربہ بنانے کا فیصلہ  کھانے والوں کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ امیر اگر روز آم کا ملک شیک پیتے ہیں تو غریب بھی گرمی سے بچاؤ کے لیے کیری کا شربت استعمال کر لیتےہیں۔ یوں آم کسی کو نراس نہیں  کرتا ۔


آم اور رومان کا گہرا تعلق ہے ۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں  جب کوئل کو ہو کو ہو کرتی آم پکنے کی دعا کر رہی ہوتی ہے تو لو گ اسے ہجر کے نغموں سے تعبیر کرتے،   ملن کی تمنا کرتے ہیں  ۔ 

آم پر لگا بور دیکھ کر دوشیزائیں سچے دل سے ماہی سے زیادہ بادلوں کے آنے کی دعا کرتی ہیں جو برس کر آم میٹھا کر جائیں ۔ 

بارش ہونے کے بعد جب پیڑ پر پینگ ڈالے گانا گاتی،ہجر کی ماری  نصف بہتر کی وڈیو  دور دیس میں  سیاں جی کے پاس جاتی ہے تو " تیری دو ٹکیا کی نوکری میری لاکھوں کا ساون جائے " سننے کی بجائے  پردیسی بابو زوم کر کے پیڑ پر آم دیکھتے ہیں اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔ 

یہی نصف بہتر ترقی یافتہ ممالک میں  اپنے  " ان " کے پاس پہنچ بھی جائیں تو حسرت بھرے اسٹیٹس لگاتی ہیں ۔ 

" زندگی میں  سب کچھ ہے،  بس گھر میں  آم کے پیڑ کی کمی ہے ۔" 

عشق اور مشک کی طرح آم بھی چھپائے  نہیں  چھپتا ۔ ایک نہ ہونے والے سروے کے مطابق آم سب سے زیادہ چرایا جانے والا پھل ہے ۔ یہ صرف ہمسائے کے پیڑ یا گاؤں کے باغات  سے نہیں  بلکہ گھر لا کر رکھی پیٹیوں سے بھی چرایا جاتا ہے ۔ عموماََ  جب تک پیٹی کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے،  تب تک وہ بے قاعدہ طور پر آدھی ہو چکی ہوتی ہے ۔آم چرا کر کھانے کے لیے یہ احتیاط لازم ہے کہ چھلکے کبھی گھر کے کوڑے دان میں  نہ ڈالیں، آم کھا کر فوراً نہانے کی کریں ورنہ آم کی خوشبو آپ کا بھانڈا پھوڑنے میں  دیر نہیں  لگائے گی ۔



Aisha Tanveer

#عائشہ_تنویر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں