بدھ، 22 جولائی، 2020

سیاسی پھلجھڑیاں




سیاست پاکستان میں ہر موسم کا پھل ہے ۔ سارے دن آفس میں کام کرتے مرد حضرات ذہنی تھکن محسوس کرنے لگیں تو سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے باس پر آیا سارا غصہ نکال لیتے ہیں ۔
بہن کو دوست کی شادی پر لے جاتے ہوئے ہزار تمنائیں دل میں دبائے، نک سک سے درست بھائی جب شادی ہال میں مرد و خواتین کے الگ حصے دیکھتا ہے تو اندر ہی اندر " دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے " گنگناتے برابر میں بیٹھے اجنبی کے ساتھ مل کر سیاست دانوں کو جو رگیدنا شروع ہوتا ہے تو اس مباحثے کا انجام کھانا کھلنے پر ہی ہوتا ہے ۔

رات گئے سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے والے طلبہ بھی جب کلاس نہ لے سکیں تو الزام حکومت پر آتا ہے ۔ اچھے حکمران کا قحط ، سڑکوں کی حالت زار اور ٹریفک جام ، یونیورسٹی پوائنٹس کی کمی اور اندرون شہر ریلوے سسٹم کا نہ ہونا ہی دراصل دیر ہونے کی بنیاد ٹہرتا ہے ۔

ہر موسم میں سیاست پر جگالی کرنے والے لوگوں کے لیے الیکشن کے دن گویا ایک پر تعیش طعام کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
اب صرف حضرات ہی نہیں بلکہ خواتین کی گفتگو بھی موسم ، بچوں اور فیشن سے نکل کر سیاست پر آ جاتی ہے ۔

پرانے وقتوں میں لوگ نو بجے کا خبر نامہ سنتے اور تجزیہ نگاروں کے تجزے پڑھ کر اپنی اچھی، بری رائے قائم کرتے تھے ۔ اپنی رائے چونکہ گھر والوں کے سامنے ہی پیش کی جاتی تو نقص امن کا خدشہ نہ ہوتا ۔ زیادہ سے زیادہ بیگم کو جب میکے لے جاتے تو سسرال والوں کو اپنی سیاسی بصیرت سے نوازنے کی کوشش کی جاتی مگر اس عمل میں بھی لڑائی جھگڑے کا زیادہ امکان نہ ہوتا ۔ سیاست دانوں کی خاطر رشتے داروں سے قطع تعلقی ہماری تہذیب نہ تھی ۔

مگر اب سوشل میڈیا اور انٹر نیت کے کثرت استعمال نے جہاں دنیا مختصر کر دی ہے، وہاں یہی چھوٹی چھوٹی رنجشیں وسیع ہو گئیں ہیں ۔
عوام کا دل پسند عمل اہنے پسندیدہ سیاست دان کے کام دیکھنے سے زیادہ اپنے ناپسندیدہ سیاست دانوں کی غلطیوں کی فہرست مرتب کرنا رہ گیا ہے ۔ سیاست سے دلچسپی ہونا یا سیاسی معلومات ہونا ایک ثانوی عمل قرار پاتا ہے اور محض ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ایک دوسرے کو خوب سنائی جاتی ہے ۔ لوگوں کی اکثریت معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل پر اعتبار کرتی ہے ۔ جو انہیں پھر کسی پر اعتبار کے قابل نہیں چھوڑتے ۔ ایڈیٹڈ وڈیو اور تصاویر سیاست دانوں کے امیج سے زیادہ لوگوں کے تعلقات خراب کرتے ہیں ۔
حقیقی زندگی میں دل اللہ کا گھر، ماننے والے کسی بھی سیاسی جماعت کے حامیوں کو عمومی طور پر ایسے غلط القابات دے دیتے ہیں ، جس سے دوستوں کے دل ہی نہیں بلکہ رابطے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔

مبہم جملے اور اسٹیٹس کو بلا وجہ خود پر لاگو کر کے غصے میں تیوریاں چڑھا لینا بھی عام ہو گیا ہے ۔
عام سے لوگ چھت پر پتنگ اڑاتے بچوں کے شور سے لطف اندوز ہوتے
" پتنگ کٹ گئی " کا اسٹیٹس ڈالیں تو بھی پوسٹ سیاسی ہو جاتی ہے ۔
سرکس میں کرتب دیکھتے سرکس کے شیر پر ٹرینر کا ظلم دیکھ کر دل تڑپ جائے اور بے اختیار
" سرکس کے شیر کے پِٹنے " کی خبر لگا دیں تو کمنٹس میں شیر کے ہمدردوں اور مخالفین کی جنگ آنکھیں کھول دیتی ہے ۔
کرکٹ جو سارا سال گلیوں میں  کھیلی جاتی ہے،  الیکشن کے دنوں میں  شجر ممنوعہ  قرار پاتی ہے ۔ 
" چھکا " ،" آؤٹ" " تھرڈ امپائر " جیسے عام سے الفاظ بھی خاص معنی دیتے ہیں ۔ 
پاک فوج سے محبت اور ان کے ہر فیصلے میں  ان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی پر  ملنے والے آڑے ترچھے کمنٹس تو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
کسی کے بھی کفر  یا مذہب سے محبت کا فیصلہ عمل دیکھ کر نہیں  بلکہ مذہبی جماعتوں کے بارے  میں  رائے دیکھ کر دے دیا جاتا ہے ۔

سوشل میڈیا،  جو تعلقات  بڑھانے کے لیے وجود میں  آیا تھا۔ اس پر ایک کے بعد ایک نفرت آمیز چیزیں دیکھ کر یقین آ جاتا ہے کہ مثبت  چیزوں کے منفی استعمال  میں  ہمیں کوئی  نہیں  ہرا سکتا ۔

الیکشن ہو گئے ہیں،  حکومت اور اپوزیشن بھی بن جائے گی ۔ وہ آپ کی دوستوں سے صلح کروانے نہیں  آئیں گے ۔ اپنے رشتوں  کی خود حفاظت کریں ۔ سیاست سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اپنے فائدے کی خاطر ہی مل کر رہنا  سیاست دانوں  سے سیکھ لیں۔  

#عائشہ_تنویر
#بے_ربط

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں