بدھ، 18 نومبر، 2015

مرزا ادیب سے معذرت کے ساتھ



ابا جی مارنے کے بہت شوقین تھے . ''باپ کی طرف پاؤں کر کے بیٹھتا ہے '' ایک تھپڑ .''کھانے میں اتنی دیر لگا دی '' پھر ایک تھپڑ ۔سارے دن میں کتنے ھی تھپڑ کھانے کے موقع آتے رہتے .اور تو اور ابا جی پڑھے لکھے بھی نہیں تھے. جو سکول میں پڑھ کر آتا, گھر آ کر ابا جی کو پڑھانا میری ذمہ داری تھی . ابا جی کو سبق یاد نہ ھوتا تو بھی دو تھپڑ مجھے ھی پڑتے '' خود کچھ سیکھ کر آئے گا تو باپ کو سکھائے گا ناں ''دادی اماں بتاتی تھیں کہ ابا جی بچپن سے بہت نالائق بچے تھے. کتنی کوشش کر لی لیکن پڑھ کر نہ دیا. ابا جی کو دادی کی بات پر بھی غصہ آتا لیکن ماں تھیں کچھ کہہ نہ پاتے تو مجھے ہی ایک تھپڑ لگا دیتے. " چل نکل یہاں سے بے غیرت, باپ کی برائیاں کرنے میں لگا ہے. "ان کا موقف یہ تھا کہ بچے تو سارے ایسے ہی ہوتے ہیں, تھوڑے ضدی, ڈھیٹ, پڑھائی سے جان چھڑانے والے. یہ غلطی دادا جان کی ہے کہ وہ سختی کر کے اپنی اولاد کو قابو نہ کر سکے. اب دادا جان کی اس غلطی کو درست کرنے کے لئے بھی قربانی کا بکرا میں ہی تھا.ابا جی کے اس رویےکی بناء پر اماں میرا بہت خیال رکھتیں." ابا جی جب مجھے مارتے اماں بچانے آ جاتیں, کبھی پیار سے '' اچھا اب بس کریں '' ،'' رہنے دیں ناں بچہ ہے, آئندہ نہیں کرے گا '' یا غصے میں '' غلطی اپنی ہے بلا وجہ بچے کے پیچھے پڑے ھیں-''اس قسم کے جملے سننا اور روزانہ کے دو چار تھپڑ کھانا میرے بچپن کی عادت تھی. ہر بار ابا جی مجھے مارتے تو اماں بچانے آ جاتیں .ایک دن میں نے سو چا ابا مارتے ھیں تو اماں بچاتی ھیں جب اماں ماریں گی تو ابا جی کیا کریں گے ؟یہ دیکھنے کے لئے میں نے اماں کے جہیز کی بیڈ پر زور سے چھلانگ لگائی. بیڈ پہلے ہی قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھا تھا, ایسا دھکا ملنے پر اندر جا گرنا لازمی تھا. اپنے جہیز کا گلاس توڑ دینے پر اماں , ابا کو بھی ان کی نانی یاد دلادیتیں تو بیڈ کی شہادت پر مجھے تھپڑ پڑنا لازم تھا. لیکن اس سے پہلے کہ اماں غصے سے آ کر میرے دو تھپڑ لگاتیں, ابا جی زور سے ہنسے اور مذاقاً بولے" لے, آج تیرے نانا کی آخری نشانی بھی گئی , پیسہ بہت تھا لیکن کنجوس اتنے کے بیٹی کے جہیز میں بھی ڈنڈی مار گئے." اماں غصے سے بل کھا کر ابا جی کی طرف مڑی. انہیں اس جملے کے ایک ایک لفظ سے لے کر ابا جی کی ہنسی تک پر اعتراض تھا. ظاہر سی بات ہے نانا کی سب سے بڑی جیتی جاگتی نشانی یعنی میری اماں کے سامنے کس کی مجال ہوئی کہ ان کے والد کی شان میں گستاخی کرے .چاہے وہ ان کا مجازی خدا ہی کیوں نہ ہو. اماں بہشتی زیور میں پڑھے صبر, برداشت کے سارے اسباق بھولے, وہ گرجیں , برسیں کہ ابا جی بھی حیران کم اور پریشان زیادہ ہو گئے . میں فوراً وہاں سے کھسکا تا کہ ابا , اماں تسلی سے معرکہ , صلح کر لیں اور کہیں ابا جی کے ہاتھوں پھر میری ہی شامت نہ آ جائے.دو دن گزرے تو پھر میرے دماغ میں اماں سے مار کھانے کا کیڑا کلبلایا , اسی لئے جب اماں نے اپنا گلابی دوپٹہ پیکو کے لئے دیا تو میں نے شان بے نیازی سے کہا'' اماں اب بوڑھی ھو رھی ھو یہ لال گلابی رنگ مت پہنا کر – اپنی عمر کے حساب سے پھیکے رنگ لیا کر ''حسب توقع اماں کو غصہ آ گیا '' تو وہ کر جو میں نے کہا ھے زیادہ بڑ بڑ نہ کر- تیرے ابا کو بتایا ناں تو یاد کرے گا ''ابا کو اندر آتے دیکھ کر میں نے سر اماں کے قریب کر دیا تو اماں نے ایک ہلکی سی چپیڑ بھی لگا دی –بس ابا جی کے لئے اتنا سٹارٹ کافی تھا- لپک کر قریب آئے اور میں جو سمجھ رہا تھا کہ شاید وہ اماں سے بازپرس کریں یا میری دلجوئی کریں انہوں نے مجھے پکڑ کر مارنا شروع کر دیا'' ماں سے بد تمیزی کرتا ھے – شرم ھے تجھے کچھ – اور تو جو مرضی کرتا رہے کبھی میں نے کچھ نھیں کہا لیکن ماں سے بدتمیزی.... اتنی نیک ، سوھنی تیری ماں ، تیرے لاڈ اٹھا اٹھا تھکتی نہیں اور تو اس کے آگے زبان چلاتا ہے '' میں مار کھاتا حسب سابق مدد کے لئے اماں کو دیکھ رہا تھا اور اماں ہکا بکا کھڑی تھی اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ابا اس کے لئے اتنا حساس ھو گا – اتنا مان سمان ، اتنا پیار ،احترام ۔ مجھے پڑنے والا ہر تھپڑ ماں کی حیثیت میں اضافہ کر رہا تھا – وہ ھواؤں میں اڑ رھی تھی مجھے بچانا اسے یاد ہی نہیں تھا اور مار کھاتے ھوئے میں نے جان لیا تھا '' دنیا میں جو چاہے کرتے رھو لیکن کبھی ماں کے ادب میں کمی نہ کرو – ماں سے پنگا لینے والوں کو نہ تو اللہ معاف کرتا ہے نہ ھی ابا جی ''