جمعہ، 14 اگست، 2015

جشن آذادی ، سوشل میڈیا سے پہلے

یوم آذادی مبارک  
                                                 جشن آذادی،  سوشل میڈیا سے پہلے

     جشن آذادی ہم ھمیشہ ہی شوق سے مناتے رہے ہیں ۔ چودہ اگست کو قومی ترانہ سننا ،پریڈ دیکھنا ، سفید اور ھرا لباس پہننا اور گھر سجانا ھمارے بچپن کے شوق ہیں ۔ ویسے تو ھم گھر کو جھنڈے، جھنڈیوں سے ہی سجاتے تھے لیکن  ہمیں یاد ہے ایک بار ہم نےتبدیلی کے لئے گھر کو دیوں سے سجانے کی کوشش بھی کی تھی ۔  (یہ سیاست والی تبدیلی نہیں  تھی ۔ کافی پرانی بات ہے،  جب سیاست اور نصابی کتب میں  ہماری دلچسپی  یکساں تھی۔  اب تو خیر دیے جلانا عام ہیں ۔ آج کل ہم نے اپنی نئ نسل کو یہ ہی سکھایا ھے کہ کسی بھی المیے پر اللہ سے رحم مانگنے اور شہداء کی مغفرت کی دعا کرنے کی بجائے دئے  جلائے جائیں  مگر ان دنوں یہ ہمارے لیے نیا خیال تھا اور ہم اس کی تاریخ سے ناواقف تھے ۔ )  بہرحال تو ھمارے گھر میں کوئی صحن کی ایسی دیوار نہ تھی جس پر دئے جلائے جا سکتے۔گھر کی بیرونی دیوار کے ساتھ زمین پر سجانا بھی اچھا نہیں لگا- سو ھمارے اوپر والی منزل پر رہنے والی پڑوسی باجی نے اپنی گیلری اس خدمت کے لئے پیش کی۔ وہ بھی ہمارے پلان میں شامل ھو گئیں۔ پھر ہماری کزن جو اپنے گھر سے خصوصا اس مشن کے لئے ہی آئی تھی۔ سو 14 اگست کو ھم سب نے بہت محنت سے دئے جلائے گھر سجایا اور گھنٹہ بھر گلی میں کھڑے ہو کر خود ہی اپنی تعریف کی ۔ جگہ سے لیکر سجاوٹ تک سب بہترین تھی لیکن تب الحمد للہ بجلی والے اتنے ''مہربان'' نہ تھے سو گلی میں جلتی روشنیوں کے ڈھیر میں ھمارے ننھے منے دئے کچھ خاص توجہ نہ پا سکے۔  اب گھر سجانے کا رواج کم ہو گیا ہے ۔آج کل ہمارے بچے تو یوم آزادی منانے کے لئے سب سے پہلے  ٹیب کا وال پیپر  بدلتے ھیں ، یا فیس بک کی پروفائل  پک، اس کے بعد ہاتھ کے بینڈ سے لے کر سر کی عجیب و غریب ٹوپیاں و لباس وغیرہ کی باری ہے،  گھر سجانا تو آخر میں آتا ہے۔        ہمارے یونیورسٹی  کے درشن کرنے تک یہ سب کچھ اتنا عام نہیں  تھا مگر جشن تو ہوتا تھا ۔یوم آذادی پر یونی کے کیا کیا قصے نہ سن رکھے تھے۔  مٹھائیاں بٹتی ہیں تو کیک کٹتے ہیں سو ہم جیسے نکمے جو صبح صبح  منہ دھونا بھی کارنامہ گردانتے ہیں۔ ان قصوں کے زیر اثر 14  اگست کو اہتمام سے سفید فراک پجامہ ، سبز دوپٹہ ، سبز و سفید چوڑیاں  پہن کر تیار شیار ہو کر یونی پہنچے۔ یہی تیاری ہماری دوست کی بھی تھی ۔ حسب معمول لیٹ پہنچے سو ڈائریکٹ کلاس کے اندر ، اب ایسے شغل تو یونی میں عام ہیں لیکن ایسی تبدیلی نظروں میں تو آئۓ گی ۔ سو اس دن کلاس میں ہمارے کلاس فیلوز ہمارے پیچھے '' سوھنی دھرتی اللہ رکھے ۔۔۔۔۔'' گنگناتے ہمیں زچ کرتے رہے۔خیر بم نے بھی ہار نہ مانی اور 14 اگست کو تیار ہونا جاری رکھا۔ہم ایم کیو ایم کے سپورٹر نہ تھے مگر یوم تاسیس کو بھائی اور باجیوں کی دی گئی چوڑیاں بخوشی قبول کرتے اور چودہ اگست کی یاد میں  سبز و سفید ایک سہیلی اور سرخ دوسری سہیلی پہن لیتی ۔  یونی میں یوم آزادی پر اور بھی بہت کچھ ہوتا مگر ہمارا شعبہ اس معاملے میں صفر تھا۔طلبا خود ہی پیسے جمع کر کے کیک لے بھی آتے اور کاٹ بھی لیتے لیکن وہ کیک ملتا قسمت والوں کو ہی تھا اور جو ہلڑ مچتا اور کیک کی وہ خراب حالت ہوتی تھی کہ سوچنے دیکھنے کا موقع ملتا تو کوئی نا کھاتا  لیکن وھاں سب  جلدی میں کسی کے اچکنے سے پہلے ہی کھا لینا چاہتے تھے سو جیسا تیسا بھی کھا لیتے۔ یوں بھی یونی لائف میں تو ہر چیز میں مزہ ہوتا ہے نا۔چاہے وہ سبیل کا شربت ھو یا میلاد کی مٹھائی۔   ویسے جس طرح لوگ  محرم میں شربت بانٹتے ہیں اور شب برآت پر حلوہ ، اسی طرح 14 اگست پر بھی تو بانٹنا چاہیئے-  سفید ہرے فرائیڈ رائس بانٹ دیں  گاجر نہ ڈالیں بس ہری شملہ مرچ،مٹر ،ھری پیاز کافی بے یا چلو سادہ مٹر پلاؤ ہی بھجوا دیں۔ہری چٹنی کے ساتھ ڈوسہ بھی اگست کی بہترین ڈش ھے۔ کچھ نہ ہو تو ہرے شربت کی ہی سبیل لگا لیں –  اف منہ میں پانی  آۓ جا رہا ہے - یاد رہے ہم بانٹنے والوں میں نہیں کھانے والوں میں سے ہیں سو  پلیز جب بھی کچھ بانٹیں ہمیں یاد رکھئے گا۔
  اللہ حافظ 

  اللہ پاکستان پر اپنی رحمت ک سائے ہمیشہ رکھے اور ہماری آذادی قائم و دائم رہے
 آمین
  پاکستان زندہ باد   
  #عائشہ_تنویر
 #Aisha_Tanveer