بدھ، 15 جون، 2022

آم کو عام کرو۔

 آم کو عام کرو


آم کو ہم نے ہمیشہ ایک عام سا پھل ہی سمجھا،  جب تک کہ پردیس میں  اس کی قدر نہ جان لی ۔ یوں تو آم شاہ سخن غالب کے بھی پسندیدہ تھے مگر کیا کریں ہماری احساس کمتری کی ماری مشرقی ذہنیت کا کہ آم ہمیں اسی صورت خاص لگے،  جب پردیس میں  ان کمیابی کا علم ہو گیا ۔ 

ہم تو اس خطے کے لوگ ہیں،  جنہیں کوہ نور بھی تاج برطانیہ میں  سجنے کے بعد خوبصورت  لگتا ہے ۔ 

سو محب آم لوگوں سے مل کر ہمیں معلوم ہوا کہ موسم گرما کی چھٹیوں میں  گاؤں جانے والوں  کی سب سے بڑی کشش آم ہوتی ہے ۔ جن کے رشتے دار گاؤں میں  نہ ہوں،  وہ آم کی قیمت پوچھ کر ہر طرف " آم کو عام کرو " کے نعرے بلند کرتے نظر آتے ہیں ۔ 

مغربی ممالک میں  پاکستانی آم کی قدر و منزلت دیکھ کر اکثر لوگوں  کو کہتے سنا ۔ 

" مجھے عام پاکستانی نہیں  بلکہ پاکستانی آم سمجھ کر ڈیل کرو ۔" 

مگر ٹھنڈے ممالک میں  رہنے والے یہ گورے عام اور آم کا فرق کیا جانیں ۔ 

یہ فرق وہی جان پاتے ہیں جو یہاں کی گرمی میں  آموں کی پیٹی اور کچی لسی کے جگ سے استفادہ کرنے کے بعد سہولت سے کہتے ہیں ۔ 

"

گرمی نے بھوک ہی مار دی ہے،  دو دن سے روٹی نہیں  کھائی ۔ " 


جیسے پردیس جاتے ہی لوگ وعدے بھول جاتے ہیں اسی طرح ہمارا سنہرا،  پیلا،  سجیلا آم دیکھ کر ذیابطیس کے مریض بھی اپنا پرہیز بھول جاتے ہیں  ۔

 

عموماً لوگوں کا خیال ہے کہ آم گرمی کا پھل ہے،  اس لیے مغربی ممالک میں  کم پایا جاتا ہے ۔ ہمارا خیال قدرے مختلف ہے، آم چھری کانٹے سے دور رہنے والا درویش صفت پھل ہے،  اسی لیے فقیر صفت لوگوں  کے خطے میں  عام ملتا ہے ۔ جو آم جیسے پھل کو بھی بناء کاٹے کھا سکتے ہیں ۔ 

یوں تو لوگ آم کو کانٹے سے کھا کر خود کو تہذہب یافتہ  ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں مگر اس چکر میں  وہ چونسے کو دبا کر کسی جوسر کی مدد کے بناء جوس پینے کے مزے سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

آم بےتکلف ساتھیوں  کا پھل ہے ۔ یہ جوانوں  کا کرائم پارٹنر ہوتا ہے ۔جن دوستوں کے ساتھ آپ آم کھا سکتے ہیں،  ان کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ اس لیے اپنے بچوں  کی تربیت کرتے ہوئے عام سے دوست بھلے نظر انداز کر دیں  مگر ان کے "آم  دوستوں " پر ضرور نظر رکھیں ۔ 

یوں تو اقسام کے حساب سے آم قدرتی طور پر بے شمار ہیں مگر اس میں  ایک قسم کچے آم یعنی کیری  کا اضافہ سراسر مقامی ہے ۔ کیری ہاتھی  کے دانت کے طرح کی  کچی بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے ۔  آم آنے سے پہلے ہی یہ کئی طرح سے استعمال ہو چکی ہوتی ہے ۔ اس کا اچار یا مربہ بنانے کا فیصلہ  کھانے والوں کی صوابدید پر ہوتا ہے۔ امیر اگر روز آم کا ملک شیک پیتے ہیں تو غریب بھی گرمی سے بچاؤ کے لیے کیری کا شربت استعمال کر لیتےہیں۔ یوں آم کسی کو نراس نہیں  کرتا ۔


آم اور رومان کا گہرا تعلق ہے ۔ گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں  جب کوئل کو ہو کو ہو کرتی آم پکنے کی دعا کر رہی ہوتی ہے تو لو گ اسے ہجر کے نغموں سے تعبیر کرتے،   ملن کی تمنا کرتے ہیں  ۔ 

آم پر لگا بور دیکھ کر دوشیزائیں سچے دل سے ماہی سے زیادہ بادلوں کے آنے کی دعا کرتی ہیں جو برس کر آم میٹھا کر جائیں ۔ 

بارش ہونے کے بعد جب پیڑ پر پینگ ڈالے گانا گاتی،ہجر کی ماری  نصف بہتر کی وڈیو  دور دیس میں  سیاں جی کے پاس جاتی ہے تو " تیری دو ٹکیا کی نوکری میری لاکھوں کا ساون جائے " سننے کی بجائے  پردیسی بابو زوم کر کے پیڑ پر آم دیکھتے ہیں اور ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔ 

یہی نصف بہتر ترقی یافتہ ممالک میں  اپنے  " ان " کے پاس پہنچ بھی جائیں تو حسرت بھرے اسٹیٹس لگاتی ہیں ۔ 

" زندگی میں  سب کچھ ہے،  بس گھر میں  آم کے پیڑ کی کمی ہے ۔" 

عشق اور مشک کی طرح آم بھی چھپائے  نہیں  چھپتا ۔ ایک نہ ہونے والے سروے کے مطابق آم سب سے زیادہ چرایا جانے والا پھل ہے ۔ یہ صرف ہمسائے کے پیڑ یا گاؤں کے باغات  سے نہیں  بلکہ گھر لا کر رکھی پیٹیوں سے بھی چرایا جاتا ہے ۔ عموماََ  جب تک پیٹی کا باقاعدہ افتتاح ہوتا ہے،  تب تک وہ بے قاعدہ طور پر آدھی ہو چکی ہوتی ہے ۔آم چرا کر کھانے کے لیے یہ احتیاط لازم ہے کہ چھلکے کبھی گھر کے کوڑے دان میں  نہ ڈالیں، آم کھا کر فوراً نہانے کی کریں ورنہ آم کی خوشبو آپ کا بھانڈا پھوڑنے میں  دیر نہیں  لگائے گی ۔



Aisha Tanveer

#عائشہ_تنویر

بدھ، 22 جولائی، 2020

سیاسی پھلجھڑیاں




سیاست پاکستان میں ہر موسم کا پھل ہے ۔ سارے دن آفس میں کام کرتے مرد حضرات ذہنی تھکن محسوس کرنے لگیں تو سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے باس پر آیا سارا غصہ نکال لیتے ہیں ۔
بہن کو دوست کی شادی پر لے جاتے ہوئے ہزار تمنائیں دل میں دبائے، نک سک سے درست بھائی جب شادی ہال میں مرد و خواتین کے الگ حصے دیکھتا ہے تو اندر ہی اندر " دل کے ارمان آنسوؤں میں بہہ گئے " گنگناتے برابر میں بیٹھے اجنبی کے ساتھ مل کر سیاست دانوں کو جو رگیدنا شروع ہوتا ہے تو اس مباحثے کا انجام کھانا کھلنے پر ہی ہوتا ہے ۔

رات گئے سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے والے طلبہ بھی جب کلاس نہ لے سکیں تو الزام حکومت پر آتا ہے ۔ اچھے حکمران کا قحط ، سڑکوں کی حالت زار اور ٹریفک جام ، یونیورسٹی پوائنٹس کی کمی اور اندرون شہر ریلوے سسٹم کا نہ ہونا ہی دراصل دیر ہونے کی بنیاد ٹہرتا ہے ۔

ہر موسم میں سیاست پر جگالی کرنے والے لوگوں کے لیے الیکشن کے دن گویا ایک پر تعیش طعام کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
اب صرف حضرات ہی نہیں بلکہ خواتین کی گفتگو بھی موسم ، بچوں اور فیشن سے نکل کر سیاست پر آ جاتی ہے ۔

پرانے وقتوں میں لوگ نو بجے کا خبر نامہ سنتے اور تجزیہ نگاروں کے تجزے پڑھ کر اپنی اچھی، بری رائے قائم کرتے تھے ۔ اپنی رائے چونکہ گھر والوں کے سامنے ہی پیش کی جاتی تو نقص امن کا خدشہ نہ ہوتا ۔ زیادہ سے زیادہ بیگم کو جب میکے لے جاتے تو سسرال والوں کو اپنی سیاسی بصیرت سے نوازنے کی کوشش کی جاتی مگر اس عمل میں بھی لڑائی جھگڑے کا زیادہ امکان نہ ہوتا ۔ سیاست دانوں کی خاطر رشتے داروں سے قطع تعلقی ہماری تہذیب نہ تھی ۔

مگر اب سوشل میڈیا اور انٹر نیت کے کثرت استعمال نے جہاں دنیا مختصر کر دی ہے، وہاں یہی چھوٹی چھوٹی رنجشیں وسیع ہو گئیں ہیں ۔
عوام کا دل پسند عمل اہنے پسندیدہ سیاست دان کے کام دیکھنے سے زیادہ اپنے ناپسندیدہ سیاست دانوں کی غلطیوں کی فہرست مرتب کرنا رہ گیا ہے ۔ سیاست سے دلچسپی ہونا یا سیاسی معلومات ہونا ایک ثانوی عمل قرار پاتا ہے اور محض ذاتی پسند ناپسند کی بنیاد پر ایک دوسرے کو خوب سنائی جاتی ہے ۔ لوگوں کی اکثریت معلومات حاصل کرنے کے لیے اپنی پسندیدہ سیاسی جماعت کے سوشل میڈیا سیل پر اعتبار کرتی ہے ۔ جو انہیں پھر کسی پر اعتبار کے قابل نہیں چھوڑتے ۔ ایڈیٹڈ وڈیو اور تصاویر سیاست دانوں کے امیج سے زیادہ لوگوں کے تعلقات خراب کرتے ہیں ۔
حقیقی زندگی میں دل اللہ کا گھر، ماننے والے کسی بھی سیاسی جماعت کے حامیوں کو عمومی طور پر ایسے غلط القابات دے دیتے ہیں ، جس سے دوستوں کے دل ہی نہیں بلکہ رابطے بھی ٹوٹ جاتے ہیں ۔

مبہم جملے اور اسٹیٹس کو بلا وجہ خود پر لاگو کر کے غصے میں تیوریاں چڑھا لینا بھی عام ہو گیا ہے ۔
عام سے لوگ چھت پر پتنگ اڑاتے بچوں کے شور سے لطف اندوز ہوتے
" پتنگ کٹ گئی " کا اسٹیٹس ڈالیں تو بھی پوسٹ سیاسی ہو جاتی ہے ۔
سرکس میں کرتب دیکھتے سرکس کے شیر پر ٹرینر کا ظلم دیکھ کر دل تڑپ جائے اور بے اختیار
" سرکس کے شیر کے پِٹنے " کی خبر لگا دیں تو کمنٹس میں شیر کے ہمدردوں اور مخالفین کی جنگ آنکھیں کھول دیتی ہے ۔
کرکٹ جو سارا سال گلیوں میں  کھیلی جاتی ہے،  الیکشن کے دنوں میں  شجر ممنوعہ  قرار پاتی ہے ۔ 
" چھکا " ،" آؤٹ" " تھرڈ امپائر " جیسے عام سے الفاظ بھی خاص معنی دیتے ہیں ۔ 
پاک فوج سے محبت اور ان کے ہر فیصلے میں  ان کا ساتھ دینے کی یقین دہانی پر  ملنے والے آڑے ترچھے کمنٹس تو ہضم کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔
کسی کے بھی کفر  یا مذہب سے محبت کا فیصلہ عمل دیکھ کر نہیں  بلکہ مذہبی جماعتوں کے بارے  میں  رائے دیکھ کر دے دیا جاتا ہے ۔

سوشل میڈیا،  جو تعلقات  بڑھانے کے لیے وجود میں  آیا تھا۔ اس پر ایک کے بعد ایک نفرت آمیز چیزیں دیکھ کر یقین آ جاتا ہے کہ مثبت  چیزوں کے منفی استعمال  میں  ہمیں کوئی  نہیں  ہرا سکتا ۔

الیکشن ہو گئے ہیں،  حکومت اور اپوزیشن بھی بن جائے گی ۔ وہ آپ کی دوستوں سے صلح کروانے نہیں  آئیں گے ۔ اپنے رشتوں  کی خود حفاظت کریں ۔ سیاست سے اتنی ہی دلچسپی ہے تو اپنے فائدے کی خاطر ہی مل کر رہنا  سیاست دانوں  سے سیکھ لیں۔  

#عائشہ_تنویر
#بے_ربط

ہفتہ، 18 جولائی، 2020

کہانی: Ammi ki Chappal امی کی چپل

کہانی: Ammi ki Chappal امی کی چپل: امی کی چپل چپل ضرویات زندگی میں سے ایک یے ۔یوں تو تمام لوگ ہی اپنے لیے آرام دہ چپل لینا چاہتے ہیں مگر اپنی امی کے لیے ہلکی پھلکی چپ...

Ammi ki Chappal امی کی چپل


امی کی چپل


چپل ضرویات زندگی میں سے ایک یے ۔یوں تو تمام لوگ ہی اپنے لیے آرام دہ چپل لینا چاہتے ہیں مگر اپنی امی کے لیے ہلکی پھلکی چپل لینا امی سے زیادہ ان کے بچوں کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے ۔ مشرقی لوگوں کو اس خواہش کا پس منظر بتانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی ۔ دکان دار خود ہی اپنی کمر سہلاتے ہوئے سب اَن کہی سمجھ جاتے ہیں ۔مشہور برانڈ کے مطابق والدہ کے لیے نرم چپل کے حصول کی خاطر نوجوان قطاروں میں کھڑے ہو جاتے ہیں، جبکہ ان کی امی نرمی کو خاطر میں لائے بغیر دکان کی ایک ایک چپل کی مضبوطی جانچ رہی ہوتی ہیں ۔پاؤں کو آرام پہنچانے والی چپل آلہ جنگ کے طور پر استعمال کر کے کسی کو بھی مضروب کیا جا سکتا ہے ۔ اس بات کا احساس بدھسٹ یا مشرقی والداؤں سے بڑھ کر کسی کو نہیں ۔ اسی لیے بدھ مت کے نرم دل دل پیروکار پاؤں تلے کیڑے آ کر مر جانے کے ڈر سے چپل نہیں پہنتے اور مشرقی امیاں بطور خاص اپنے بچوں کے دماغ کے کیڑے جھاڑنے کے لیے یہی چپل استعمال کرتی ہیں ۔ یوں تو چپل استاد محترم اور والد صاحب کے پاس بھی ہوتی ہے مگر وہ اس کے استعمال سے نابلد ڈنڈے کی تلاش میں خوار ہوتے ہیں ۔امی کی چپل کی خاص بات یہ ہے کہ مار کھانے کے لیے لا کر بھی خود ہی دینی پڑتی ہے ۔ وگر نہ ہاتھ سے مارنے کی صورت میں جب تک امی کے ہاتھ میں درد ہو گا، ان کا غصہ تازہ ہوتا رہے گا ۔شنید ہے کہ تمام بڑے لوگ امی کی چپل کھا کر ہی شہرت کی بلندیوں تک پہنچے ہیں ۔چپل کو "آلہ تربیت" کے طور پر استعمال کرنے کا ڈھنگ بہت نرالا ہوتا ہے ۔کسی کے بھی سامنے امی بظاہر نرمی سے مسکراتے مگر آنکھوں سے شعلے برساتے جب اپنی چپل کی طرف اشارہ کرتی ہیں تو بناء کسی شمع بینی کے ہم لمحوں میں ٹیلی پیتھی کی مدد سے امی کے دماغ میں چلنے والے خیالات کے مطابق عمل کرنے لگتے ہیں ۔ اگر امی کی آنکھ کا اشارہ ہمیں سمجھانے میں ناکام ہو تو " چپل بہت کاٹ رہی ہے " کا کوڈ ورڈ ہی ہمیں سب بھولے بسرے کام یاد دلا دیتا ہے ۔ مارکیٹ میں جلے کی دوا، کٹنے کی دوا ہونے کے باوجود کہیں بھی چپل کے زخم کی دوا نہیں ملتی ۔ کونکہ سب کو معلوم ہے کہ امی کی چپل کھانا مرض نہیں بلکہ یہ بذات خود بہت سی بیماریوں کا علاج ہے ۔امی کی چپل کا نشانہ بعض اوقات بھارتی فضائیہ کی طرح ہو جاتا ہے یعنی ٹارگٹ کی تک نہیں پہنچ پاتا ۔ اس کے باوجود ان کے اطمینان میں ذرا فرق نہیں آتا اور وہ مضروب کو ہی اس کا قصور وار ٹہراتی ہیں ۔سچ تو یہ ہے کہ مشرقی معاشرے کی بچی کچھی اخلاقی اقدار امی کی چپل کے ہی مرہون منت ہیں ۔

اتوار، 23 جون، 2019

کہانی

کہانی،
جو انسان کی پیدائش سے پہلے ہی وجود میں آگئی تھی ۔ کہانی جو ازل سے ابد تک  ہے۔

عائشہ تنویر
Aisha Tanveer

جمعرات، 17 جنوری، 2019

ایک تصویر ایک کہانی


تصویری کہانی

عنوان : سانجھا دکھ

" سرحد پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ ، ایک. سپاہی شہید "
معمول کی خبر تھی جو "امن اور دوستی " کے نعرے لگانے والوں کے نوٹس میں بھی نہ آئی۔

باؤنڈری لائن کی خلاف ورزی پر حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا کیونکہ محافظ ان کی اولاد نہ تھے 
لیکن دور چھوٹے سے گاؤں میں بیٹے کی شادی کی تاریخ رکھتے، بہو کے سہاگ کا جوڑا خریدتے بوڑھے ماں باپ ڈھے گئے تھے۔
پرچم میں لپٹے بیٹے کی تدفین کے بعد اندھیرے میں بیٹھے سوچ رہے تھے۔
بچھڑنے کا غم کریں یا بیٹے کی شہادت کی خوشی منائیں

#عائشہ_تنویر

پیر، 14 جنوری، 2019

ہماری ہیروئن

ہماری ہیروئن

اکثر لوگوں  کو شکوہ رہتا ہے کہ دنیا بدل گئی مگر ہمارے ڈائجسٹ کی ییروئن نہ بدلی ۔ ان کا یہ شکوہ بالکل بے جا ہے ۔ زمانے اور موسم کے ساتھ فیشن بدلتے ہیں تو ڈائجسٹ میں  چھپنے والی کہانیوں  کا فارمولا کیوں نہ بدلے ۔

ہماری ہیروئن اب پہلے جیسی نہیں رہی ۔ٹرینڈ بدل گئے ہیں ۔ ہیروئن مہمانوں  کے آنے پر جلدی سے مٹر پلاؤ بنا کر شامی کباب فرائی نہیں  کرتی بلکہ اب وہ گھر میں  بیک کیےکیک  ، براؤنیز اور پزا لا کر سامنے سجا دیتی ہے ۔ جتنی بیکنگ  ہماری کہانیوں  میں  ہوتی ہے،  پورے پاکستان  میں  کہیں نہیں  ہوتی ۔ عوام کے پرزور اصرار پر کبھی دیسی کھانے بنائیں بھی جائیں تو بریانی،  قورمے کے بجائے افغانی پلاؤ،  لبنانی کباب اور ہرے مصالحے کا سالن پیش کیا جاتا ہے ۔ کچومر سلاد کو رشین سلاد سے بدل دیا جاتا ہے ۔

ویسے توہیروئن کو ان سب جھنجھٹ کی ضرورت ہی نہیں  کیونکہ وہ جانتی ہے کہ آج کل مہمانوں  کو کھانے سے زیادہ کمپنی دینا ضروری ہے ۔ وہ فون پر کھانا آرڈر کر کےخود مہمانوں  کے ساتھ آ بیٹھتی ہے جو حیرت سے بک شیلف میں  " خوشبو" اور " آنکھیں بھیگ جاتی ہیں " کی بجائے  کیمیاء و طبیعات کی کتابیں دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔ جب قدرے جھجھکتے ہوئے مہمان دریافت کرتے ہیں کہ آپ کو ادب سے دلچسپی نہیں  تو ہیروئن خود اعتمادی سے اپنے اسٹیپس میں  کٹے بال جھٹکتے ہوئے ہنس دیتی ہے ۔ لمبی چوٹی اب فیشن میں  جو نہیں ۔
ہیروئن کی بجائے مما فخریہ بتاتی ہیں ۔
" اس کے پاس وقت ہی کہاں، یونیورسٹی  کے بعد اپنا بلاگ بھی چلا رہی ہے ۔ پھر بھی شوق بہت ہے ۔ 'فورٹی رولز آف لو' اور 'الکیمسٹ'  تو کب کی پڑھ چکی ۔"

ہیروئن اب ٹیوشن سینٹر یا سوشل ورک  کے بجائے سوشل میڈیا پر پائی جاتی ہے ۔ اس کے کلکس انسٹا پر وائرل ہو جاتے ہیں اور اس کے ٹوئٹس الیکٹرانک میڈیا میں  جگہ پاتے ہیں ۔

نئے زمانے کی جدید ہیروئن اب چوڑی دار پائجاموں کی بجائے  برانڈڈ ڈھیلے ڈھالے کرتے کے ساتھ جینز پہنتی ہے ۔  بڑے بڑے دوپٹوں کی جگہ اسٹالرز چلتے ہیں ۔
وہ آئی شیڈو لگائے نہ لگائے مگر کلر لینس کا استعمال عام ہے ۔ لیزر آپریشن نے جتنا فیض ہیروئین کو پہنچایا باقی عوام حاصل نہ کر سکی ۔ اب شاذ و نادر ہی چشمے والی ہیروئن نظر آتی ہے ۔ چشمہ لگانے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ گاڑی سے نکل کر خنک شاپنگ مال کے اندر جاتی ہیروئن سیاہ سن گلاسز بالوں پر نہیں  ٹکا سکتی۔
ہیروئن چندے آفتاب،  چندے ماہتاب نہیں  ہوتی مگر اس کا فیشن سینس اعلیٰ  ہوتا ہے ۔ باقاعدگی  سے کلینزنگ کرنے کی وجہ سے اس کی سنہری رنگت،  کزن کی دوھیا سفید رنگت سے زیادہ لشکارے مارتی ہے ۔ وہ اب ہاتھوں میں  بھر بھر کر حیدرآبادی ریشمی چوڑیاں نہیں  پہنتی بلکہ ایک نازک سا بریسلیٹ اس کے سنگھار کو چار چاند لگانے کے لیے کافی ہوتا ہے ۔ گلابی کپڑوں میں  قدرتی گلابی ہونٹوں کے بجائے وہ طریقے سے اپنے چہرے کی رنگت کے حساب  سے لپ گلوز یا لپ کلر استعمال کرتی ہے ۔ لپ پینسل ہونٹوں کے خم کو نمایاں کرنے میں  مدد دیتی ہے ۔  کپڑے فیشن کے حساب سے سرمئی،  سیاہ و قرمزی رنگ بدلتے رہتے ہیں ۔
ہیروئن درختوں  سے کیری،  آم،  جامن یا فالسے اتار کر کھانے کی بالکل شوقین  نہیں  ہوتی کیونکہ اسٹائلش لگنا آسان نہیں  ۔اپنی فٹنس اور اپنے وزن کو مین ٹین رکھنے کے لیے اسے کیلوریز گن گن کر کھانا کھانا ہوتا ہے ۔پھر بھی " تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے " کہ مصداق ہیرو سے فوڈ اسپاٹ پر ٹکراؤ ہو جائے تو وہ  بڑا سا منہ کھول کر گول گپا کھانے کی بجائے نزاکت سے فرائز کا کنارہ کترنے یا اسٹرا سے سلیش پینے کو ترجیح دیتی ہے ۔

اب ہیروئن پھپو کے بیٹے کے رشتے سے انکار کرنے کی بجائے نرمی سے ماں کو سمجھاتی ہے کہ پھپو اور آپ کے اختلافات  بجا مگر انہیں ہم سے بہت پیار ہے  کیونکہ وہ اچھے سے جانتی ہے کہ جہان سکندر ، حیا کی پھپو کا بیٹا تھا تو کیف،  خوش نصیب کے تایا کا چشم و چراغ ۔
دور جدید کی ہیروئن عید پر خود سارا دن خوار ہونے کی بجائے صبح صبح نک سک سے تیار ہو کر بیٹھ جاتی ہے اور اس کا سب سے بڑا کام ملازمہ کو ہدایات  دینا ہوتا ہے ۔ اگر کوئی کم عقل اس پر اعتراض  کر دے تو وہ ایک شرمندہ کرنے والی نظر اس پر ڈال کر بتاتی ہے کہ مجھے اپنے ملازمین کا تم سے زیادہ خیال ہے ۔ میں  نے اسے دینے کے لیے  پیسے سنبھال رکھے ہیں اگر کام کروائے بغیر دے دوں گی تو اس کی عزت نفس مجروح ہو گی اور اسے کمانے کی بجائے  مانگ کر کھانے کی عادت پڑے گی ۔
یوں بھی ہیروئن کی اماں کو اب اس کے ہاتھ کے سلے کپڑوں یا قیمہ بھرے کریلوں کا چرچا کرنے کی چنداں حاجت نہیں  ۔ وہ فخریہ سب کے سامنے بتاتی ہیں کہ یہ میری بیٹی نہیں  ، بیٹا ہے ۔  پاپا کی بیماری میں  سارا کاروبار  بخوبی سنبھال لیا ۔
ہیرو کو بھی آج کل شرمانے لجانے والی ہیروئن متاثر نہیں  کرتی۔ وہ بااعتماد لہجے میں  منہ توڑ جواب دیتی لڑکی کا متلاشی ہوتا ہے۔ جس لڑکی کو وہ سیدھی سادی  ابو کی بھتیجی سمجھ کر مسترد کرتا ہے ۔بعد میں معلوم ہوتا ہے،  وہ گھر بیٹھے مشہور اخبارات میں  کالم لکھا کرتی ہے ۔ ہیرو اب یونیورسٹی  میں  جھگڑا ہونے پر ہیروئن کو درختوں  سے گِھرے راستوں سے نہیں  نکالتے بلکہ ہیروئن خود حواس کھوئے بغیر زخمی ہیرو کو ہسپتال پہنچا دیتی ہے ۔
ایسی پر اعتماد ہیروئن شوہر کے ظلم و ستم کہہ کر " اپنا نام میرے نام سے مت ہٹائیں " کی التجا نہیں  کرتی بلکہ وہ فوراً سے گھر چھوڑ کر چلی جاتی  ہے ۔ صلح،  صفائی لیے رائٹر کو ایک علیحدہ قسط لکھنی پڑتی ہے ۔
یہی بے وفائی اگر منگیتر کرے تو صلح کی نوبت نہیں  آتی اور  یک طرفہ محبت میں  گرفتار کلاس فیلو/ کولیگ کو فوراً ہیرو کے عہدے پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
ہماری یکتا و دانا ہیروئن کو ہیرو کیسا چاہیے ہوتا ہے،  اس پر بات پھر سہی ۔۔۔۔

#عائشہ_تنویر